اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قراداد بھاری اکثریت سے منظور

اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان ہنگامی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قراداد منظور کرلی گئی۔

22 عرب ممالک کے اتحاد کی طرف سے تیار کردہ قرارداد کو 120 ووٹوں سے منظور کیا گیا، 45 ممالک نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ امریکا اور اسرائیل سمیت 14 ممالک  نے منفی ووٹ ڈالے۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے ووٹنگ سے پہلے کہا کہ قرارداد کو مسترد کرنے کا مطلب ہے اس بے ہودہ جنگ، بے گناہ قتل کی منظوری دینا ہے۔

یہ قرارداد قانونی طور پر پابند نہیں ہے، لیکن یہ بین الاقوامی جذبات کا ایک تصویر فراہم کرتی ہے کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو رہا ہے اور حماس کے  حملوں میں اب تک 1,400 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور روس کی جانب سے ویٹو کے استعمال کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دو ہفتوں تک کارروائی کرنے میں ناکام رہنے کے بعد جنرل اسمبلی میں اس معاملے پر ووٹنگ ہوئی۔

جس قرارداد پر ووٹ دیا گیا وہ فوری، دیرپا اور مسلسل جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے جس کے نتیجے میں لڑائی روک دی جائے گی۔ یہ فلسطینی شہری آبادی کو زبردستی منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

اسرائیل کے اقوام متحدہ کے ایلچی گیلاد اردان نے کہا کہ جنگ بندی حماس کو دوبارہ مسلح ہونے کا موقع فراہم کرے گی اور ووٹنگ کا مقصد امن کا حصول نہیں بلکہ اسرائیل کے اقدامات کو محدود کرنا ہے۔

اسرائیلی نمائندے نے اپنے ارادوں کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل حماس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسرائیل اپنے دفاعی اقدامات پر قائم رہے گا، عالمی سطح پر حماس کو ختم کرکے اپنے مستقبل اور وجود کو محفوظ رکھے گا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی خطاب کے دوران فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی شہری آبادی کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں